ایک معلق مخلوق (امت مسلمہ)

گزشتہ شب اہل غزہ کے لئے قیامت تھی. یہ محض حملہ نہیں تھا یہ نسل کشی کا باقاعدہ منصوبہ ہے. جس کو اسرائیل مغرب کے تعاون سے انجام دے رہا ہے. مغرب چوراہے میں ننگا کھڑا ہے. عورتوں، بچوں اور نہتے شہریوں کے جتنے حقوق ان کی تقاریر کتابوں اور سیمینارز میں سنائی دیتے ہیں یہ محض ایک نقاب کے سواء کچھ نہیں. اس خوبصورت کلاکاری کے پیچھے ایک بدروح چھپی بیٹھی ہے. جس کا مشاہدہ ہم وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں. مغرب سے مرغوب طبقہ ہمارے سامنے انہیں جیسا مہان بنا کر پیش کر رہا تھا وہ تو اس سے بہت کم درجہ کے نکلے. ہسپتال پر حملہ کو اتنی آسانی سے قبول کر لیا گیا گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں. بیرونی دنیا کے لیے عوام کسی ملک کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ ریاست عوام کی نمائندگی کرتی ہے. اہل مغرب نے بطور ریاست خود کو سفاک اور خود پسند ثابت کیا ہے.

مسلمان ممالک پراکسیز کے ذریعے دنیا کا مقابلہ کرنا چاہ رہے ہیں جو کہ غیر مہذب بھی ہے اور غیر فعال بھی. آج کئی لوگ ہمیں طالبان کی جیت کو امریکہ کی شکست بتاتے ہیں، انہیں حماس کی صورت میں بھی اسرائیل کی چیخیں سنائی دیتی ہیں، ایسی ایسی طفل تسلیاں گھڑی جا رہی ہیں کہ تصویر کا محض ایک رخ دیکھا جا رہا ہے. عام فلسطینیوں اور افغانیوں کے لیے طالبان اور حماس اسرائیل و امریکہ کے سہولت کار ثابت ہوئے ہیں. 20 سال بعد امریکہ کو افغانستان میں شکست نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے اہداف بدل گئے ہیں. جس چین کی نگرانی کے لیے وہ افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے اس چین کو جنگ کے ذریعے شکست نہیں دی جا سکتی. صنعتی ترقی کے بغیر چین کو زیر کرنا آسان نہیں. دنیا کے نقشے پر چین و بھارت ایسی معاشی قوتین بنتی جا رہی جن کے ساتھ تعاون کے سواء مغرب کے پاس کوئی چارہ نہیں. امریکہ آج بھی وہیں کھڑا ہے افغانستان میں بیشتر بچے یتیم ہو گئے ملک کا ڈھانچہ تباہی کے دہانے پر ہے. اسے کسی کی شکست کہہ دینا اپنے زخموں سے کھیل کر لذت کشید کرنے جیسا ہے.

آج مڈل ایسٹ / جنوبی ایشیاء میں جو عدم استحکام ہے اس کے پیچھے خمینی کا انقلاب، بن لادن کی مزاحمت اور طالبان کی حکمرانی ہے. میں سیاسی حکمرانوں اور بادشاہوں کو اس لیے ذمہ دار نہیں سمجھتا کیونکہ اوپر ذکر کیے گئے انقلابیوں کو جواز بنا کر مغرب نے اپنے تحفے ہم پر مسلط کیے ہوئے ہیں. مسلم امہ کی حالت پیچھے کنواں آگے کھائی جیسے ہے. ہماری پشت پر یا تو اہل مغرب کا وفادار طبقہ مسلط ہے یا پھر انہیں کے سہولت کار مزاحمت کرنے والے. عام آدمی کو کیسے طاقتور بنایا جا سکتا ہے اس جانب پیش قدمی کیے بغیر ہم یونہی معلق رہیں گے.

تبصرہ کریں